باب نہم
دین ِالٰہی
تمام
دین اس دنیا میں نبیوں
کے ذریعے بنائے گئے۔ جبکہ
اس سے پہلے خود عشق ، خود
عاشق ، خود معشوق تھا۔
اور
وہ روحیں جو اس کے قرب،
جلوے اور محبت میں تھیںوہی
عشق الٰہی، دین ِالٰہی
اور دین ِ حنیف تھا۔
پھر
اُن ہی روحوں نے دنیا میں
آکر اُس کو پانے کےلئے
اپنا تن من قربان کر دیا۔
(یہ) پہلے خاص
تک تھا، اب روحانیت کے
ذریعہ عام تک بھی پہنچ
گیا۔
حضرت ابو ہریرہ
کہتے ہیں مجھے حضور پاکسے
دو علم حاصل ہوئے ایک تمہیں
بتادیا، دوسرا بتاؤں
تو تم مجھے قتل کردو!
جب
شاہ شمس تبریزؒ نے پانی
کے حوض سے خشک کتابیں نکالیں
تو
مولانا رومؒ نے کہا:
ایں چیست؟ (یہ کیا ہے؟)
شاہ
شمس ؒ نے کہا: ایں آں علم
است کہ تو نمی دانی! (یہ وہ
علم ہے جسے تم نہیں جانتے)
اسی
طرح جب موسیٰؑ نے کہا کہ
کیا کچھ اور علم بھی ہے؟
تو اللہ نے کہا کہ خضرؑکے
پاس چلا جا۔
ہر نمازی کی دُعا:
اے اللہ! مجھے اُن لوگوں
کا سیدھا راستہ دکھا ،
جن پر تیرا انعام ہوا!
علامہ اقبالؒ
اس کو
کیا جانے، بچارے دو رکعت
کے امام
....٭....
وہ
روحیں جو ازل سے ہی با مرتبہ
ہیں، اللہ جن سے محبت کرتا
ہے، اور جو اللہ سے محبت
کرتی ہیں، دنیا میں آکر
بھی رب کی نام لیوا ہوئیں،
مثلاّ عیسیٰ ؑ زچگی میں
ہی بول اُٹھے تھے کہ میں
نبی ہوں، جبکہ حضرت مریم
کو پیدائش سے پہلے ہی جبرائیل
بشارت دے چکا تھا۔موسیٰ
ؑکے متعلق فرعون کو پیشن
گوئی تھی، کہ فلاں قبیلے
سے ایک بچہ پیدا ہوگا جو
تمہاری تباہی کا سبب بنے
گا، اور اللہ کا خاص بندہ
ہوگا ۔ حضور پاک نے بھی
کہا تھا : میں دنیا میں آنے
سے پہلے بھی نبی تھا۔
بہت سی محب اور ازلی ارواح
مختلف مذاہب اور مختلف
اجسام میں موجود ہیں۔
اس آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ کسی ایک
روح کو دنیا میں بھیجے
گا جو اِن روحوں کو تلاش
کر کے اکھٹا کرےگا، اور
انہیں یاد دلائے گا کہ
کبھی تم نے بھی اللہ سے
محبت کری تھی۔ ایسی تمام
روحیں خواہ کسی بھی مذہب
یا بے مذہب اجسام میں تھیں۔
اُس کی آواز پر لبیک کہیں
گی، اور اُس کے گرد اکھٹی
ہوجائینگی وہ رب کا ایک
خاص نام اِن روحوں کو عطا
کریگا، جو قلب سے ہوتا
ہوا روح تک جا پہنچے گا
، اور پھر روح اُس نام کی
ذاکر بن جائیگی۔ وہ نام
روح کو ایک نیا ولولہ،
نئی طاقت اور نئی محبت
بخشے گا۔ اُس کے نور سے
روح کا تعلق دوبارہ اللہ
سے جُڑ جائیگا۔ ذکر
قلب ذکرِ روح کا وسیلہ
ہے، جیسا کہ بندگی یعنی
نماز، روزہ ذکر ِ قلب کا
وسیلہ ہے۔ اگر کسی کی روح
اللہ کے ذکر میں لگ گئی
تو وہ اُن لوگوں سے ہے،
جنہیں ترازو، یوم محشر
کا بھی کوئی خوف نہیں۔
روح کے آگے کے ذکر اور عبادت
اُس کے بلند مراتب کے شواہد
ہیں۔
جن لوگوں کی
منزل قلب سے روح کی طرف
رواں دواں ہے، وہی دین
ِ الٰہی میں پہنچ چکے یا
پہنچنے والے ہیں۔ اِن
کو کتابوں سے نہیں بلکہ
نور سے ہدایت ہے اور نور
سے ہی باز ِ گناہ ہوجاتے
ہیں۔ اور جو سُن کر یا محنت
سے بھی اس مقام سے محروم
ہیں وہ اس سلسلے میں شامل
نہیں ہیں۔ اگر ذکر قلب
و روح کے بغیر خود کو اس
سلسلے میں متصور کیا یا
اُن کی نقل کی، تو وہ زندیق
ہیں۔
جبکہ
عام لوگوں کی بخشش کا ذریعہ
عبادات اور مذہب ہیں۔
ہدایت
کا ذریعہ آسمانی کتب ہیں۔
شفاعت
کا ذریعہ نبوت اور ولائت
ہے۔
بہت
سے مُسلم ولیوں کی شفاعت
کو نہیں مانتے۔ لیکن حضور
نے اصحابہ کو تاکید کری
تھی کہ اویس قرنیؓ سے اُمت
کےلئے بخشش کی دُعا کرانا۔
روُحوں
کا دین
عشقِ الٰہی و دینِ الٰہی
والوں کی پہچان
جس
میں سب دریا ضم ہو جائیں
وہ سمندر کہلاتا ہے!
اور
جس میں سب دین ضم ہو کر ایک
ہو جائیں، وہی عشق ِ الٰہی
اور دین ِ الٰہی ہے!
جتھے
چاروں مذہب آ ملدے ھُو(
سلطان صاحبؒ)
ابتدائی
پہچان:
جب قلب و
روح کا ذکر جاری ہو جائے،
چاہے عبادت سے ہو یا کسی
کامل کی نظر سے ہو، دونوں
حالتوں میں وہ ازلی ہے۔
گناہوں سے نفرت ہونا شروع
ہوجائے، اگر گناہ سرزد
ہو بھی جائے تو اُس پر ملامت
ہو اور اُس سے بچنے کی ترکیبیں
سوچے۔
مجھے وہ لوگ بھی پسند
ہیں جو گناہوں سے بچنے
کی ترکیبیں سوچتے ہیں۔
( فرمانِ الٰہی)
دنیا
کی محبت دل سے نکلنا اور
اللہ کی محبت کا غلبہ شروع
ہوجائے، حرص، حسد، بخل
اور تکبر سے چھٹکارا محسوس
ہو۔ زبان کسی کی غیبت سے
باز آجائے، عاجزی محسوس
ہو، کنجوسی کی جگہ سخاوت
اور جھوٹ جاتا نظر آئے۔
حرام خواہشات ِنفسانی
حلال میں تبدیل ہوجائیں۔
حرام مال، حرام کھانے
اور حرام کاموں سے نفرت
پیدا ہو۔
انتہائی
پہچان:
چرس، افیون،
ہیروئن، تمباکو اور شراب
وغیرہ سے مکمل چھٹکارا
ہو جائے۔ مقدس ہستیوں
سے خواب، مراقبے یا مکاشفہ
کے ذریعہ ملاقاتی ہو جائے۔
نفس اماراہ سے مطمئنہ
بن جائے، لطیفہ انا رب
کے روبرو ،اللہ اور بندے
کے درمیان سب حجابات اُٹھ
جائیں۔ باز ِ گناہ، عشق
ِخدا ، وصل ِ خدا ، بندہ
سے بندہ نواز اور غریب
سے غریب نواز بن جائے۔
کیونکہ
اس سلسلے میں مختلف مذاہب
سے آ کر خاص روحیں شامل
ہونگیں، جنہوں نے روز
ِازل میں رب کی گواہی میں
کلمہ پڑھ لیا تھا۔ اس لیے
کسی بھی مذہب کی قید نہیں
ہوگی۔ ہر شخص اپنے مذہب
کی عبادت کرسکے گا، لیکن
قلبی ذکر سب کا ایک ہوگا۔
یعنی مختلف مذاہب کے باوجود
دِلوں سے سب ایک ہوجائیں
گے، پھر جب دلوں میں اللہ
آیا تو سب اللہ والے ہوجائیںگے۔
اِس کے بعد رب کی مرضی ہے
انہیں اپنے تئیں رکھے
یا کسی بھی مذہب میں ہدایت
کے لیے بھیج دے یعنی کوئی
مفید ہوگا، کوئی منفرد،
کوئی سپاہی ہوگا، اور
کوئی سالار ہوگا۔
ان
کی امداد اور ساتھ دینے
والے گناہگار بھی کسی
نہ کسی مرتبے میں پہنچ
جائیں گے۔ جو لوگ اس ٹولے
میں شامل نہ ہو سکے، اُن
میں سے اکثر شیطان(دجال)
کے ساتھ مل جائیں گے۔ خواہ
وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم
ہوں۔ آخرمیں ان دونوں
ٹولوں کی زبردست جنگ ہوگی۔
عیسیٰؑ، مہدی، کالکی
اوتار والے ملکر انہیں
شکست دینگے۔ بہت سے دجالئے
قتل کرد یے جائیں گے، جو
بچیں گے وہ خوف اور مجبوری
کی وجہ سے خاموش رہیں گے۔
مہدی
اور عیسیٰ کا لوگوں کے
قلوب پر تسلط ہوجائے گا۔
پوری دنیا میں امن قائم
ہوجائے گا۔ جُدا جُدا
مذہب ختم ہو کر ایک ہی مذہب
میں تبدیل ہو جائیں گے۔
وہ مذہب رب کا پسندیدہ
، تمام نبیوں کے مذاہب
اور کتابوں کا نچوڑ، تمام
انسانیت کے لئے قابل ِقبول،
تمام عبادات سے افضل،
حتیٰ کہ اللہ کی محبت سے
بھی افضل، عشق الٰہی ہوگا۔
جتھے عشق پہنچاوے،
ایمان نو وی خبر نہیں
(سلطان باھوؒ)
علامہ
اقبال نے اسی وقت کے لئے
نقشہ کھینچا تھا:
دنیا
کو ہے اُس مہدی برحق کی
ضرورت
ہو جس کی نظر زلزلہء
عالم ِافکار
کھلے
جاتے ہیں اسرار ِنہانی،
گیا دور حدیث لن ترانی
ہوئی
جس کی خودی پہلے نمودار،
وہی مہدی وہی آخر زمانی
کھول
کر آنکھ مری آئینہءادراک
میں ، آنے والے دور کی دھندلی
سی اک تصویر دیکھ
لولاک
لما دیکھ زمیں دیکھ ، فضا
دیکھ ، مشرق سے اُبھرتے
ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
گزر
گیا اب وہ دور ساقی کہ چُھپ
کے پیتے تھے پینے والے
بنے
گا سارا جہاں میخانہ ہر
ایک ہی بادہ خوار ہوگا
زمانہ
آیا ہے بے حجابی کا عام
دیدارِ یار ہوگا
سکوت
تھا پردہ دار جس کا وہ راز
اب آشکار ہوگا
نکل
کے صحرا سے جس نے روما کی
سلطنت کوپلٹ دیا تھا
سُنا
ہے قدسیوں سے میں نے وہ
شیر پھر ہوشیار ہوگا
تمام
آسمانی کتابیں اور صحیفے
اللہ کا دین نہیں ہیں۔
ان کتابوں میں نماز روزہ
اور داڑھیاں ہیں۔ جبکہ
اللہ اس کا پابند نہیں
ہے، یہ دین نبیوں کی امتوں
کو منور اور پاک صاف کرنے
کےلئے بنائے گئے۔ جبکہ
اللہ خود پاکیزہ نور ہے،
اور جب کوئی انسان وصل
کے بعد نور بن جاتا ہے تو
پھر وہ بھی اللہ کے دین
میں چلا جاتا ہے۔ اللہ
کا دین پیار و محبت ہے۔
ننانوے ناموں کا ترجمہ
ہے۔ اپنے دوستوں کا ذکر
کرنے والا ہے۔
خود
عشق، خود عاشق، خود معشوق
ہے۔ اگر کسی بندہ ِ خدا
کو بھی اُس کی طرف سے اِن
میں سے کچھ حصہ عطا ہوجائے
تو وہ دین ِالہیٰ میں پہنچ
جاتا ہے۔ پھر اُس کی نماز
دیدار ِالہیٰ اور اس کا
شوق ذکر ِ خدا ہے۔ حتیٰ
کہ اس کی زندگی کی تمام
سنتوں، فرضوں کا کفارہ
بھی دیدارِ الہیٰ ہے۔
جن فرشتے اور انسانوں
کی مشترکہ عبادت بھی اُس
کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی۔
ایسے
ہی شخص کےلئے شیخ عبدالقادر
جیلانی نے فرمایا کہ:
" جس نے وصال پر پہنچ کر
بھی عبادت کی یا ارادہ
کیا ، تو اُس نے کفران ِ
نعمت کیا "
بلھے
شاہ نے فرمایا:
" اساں
عشق نماز جدوں نیتی اے
" ، " بھُل گئے مندر مسیتی
اے"
علامہ
اقبال نے کہا :
اس کو
کیا جانے بے چارے دو رکعت
کے امام
اس
علم کے متعلق ابو ہریرہ
نے فرمایا تھا:
کہ مجھے
حضور سے دو علم عطا ہوئے،
ایک تمہیں بتا دیا۔ اگر
دوسرا بتا ¶ ںتو تم مجھے
قتل کردو۔
تاریخ
گواہ ہے کہ جنہوں نے بھی
اس علم کو کھولا، شاہ منصور
اور سرمد کی طرح قتل کر
دیے گئے۔
اور
آج گوہر شاہی بھی اس علم
کی وجہ سے قتل کے دہانے
پر کھڑے ہیں۔
نبیوں
کی شریعت کی پابندی امت
کے لئے ہوتی ہے۔ ورنہ انہیں
کسی عبادت کی ضرورت نہیں
ہوتی۔ وہ شریعت سے پہلے
ہی بلکہ روز ازل سے ہی نبی
ہوتے ہیں، چونکہ انہوں
نے دین کو نمونے کے طور
پر مکمل کرنا ہوتا ہے۔
ان کے کسی ایک رکن کے چھوڑنے
یا فعل کو بھی امت سنت بنا
لیتی ہے، اس وجہ سے انہیں
محتاط اور صحو میں رہنا
پڑتا ہے۔ کیا کوئی شخص
یہ کہہ سکتا ہے کہ کوئی
بھی نبی اگر کسی بھی عبادت
میں نہیں ہے تو کیا وہ دوزخ
میں جاسکتا ہے؟ ہر گز نہیں
! کیا کوئی شخص کہہ سکتا
ہے کہ عبادت کے بغیر نبی
نہیں بن سکتا ؟ کیا کوئی
یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ علم
سیکھے بغیر نبوت نہیں
ملتی؟ پھر ولیوں پر اعتراضات
کیوں ہوتے ہیں؟ جبکہ ولائت
نبوت کا نعم البدل ہے۔
یاد
رکھیں جنہوں نے دیدار
ِرب کے بغیر وصال کا دعویٰ
کیا، یا خود کو اس مقام
پر تصور کر کے نقل کی، وہ
زندیق اور کاذب ہیں۔ اور
قرآن نے ایسے ہی جھوٹوں
پر لعنت بھیجی ہے۔ جن کی
وجہ سے ہزاروں کا وقت اور
ایمان برباد ہوتا ہے۔
"یہ
کتاب ہر مذہب، ہر فرقے
اور ہر آدمی کے لئے قابل
ِ غور
اور قابل ِ تحقیق
ہے۔اور منکران ِ روحانیت
کےلئے ایک چیلنج ہے!"
" فرمودات
ِ گوہر شاہی"
تین
حصے علم ِظاہر کے ہیں،
اور ایک حصہ علم ِ باطن
کا ہے ۔
ظاہری علم حاصل
کرنے کےلئے کسی موسیٰ
اور باطنی علم کےلئے،
کسی خضر کو تلاش کرنا پڑتا
ہے۔
............
جبرائیل کے بغیر
جو آواز آئی، اُسے الہام
اور جو علم آیا، اُسے صحیفے
اور حدیث ِ قدسی کہتے ہیں۔
اور
جبرائیل کے ساتھ جو علم
آیا، اُسے قرآن کہتے ہیں،
خواہ وہ ظاہری علم ہو یا
باطنی علم ہو۔
اُسے توریت
کہیں، زبور کہیں، یا انجیل
کہیں!
............
علماءسے اگر کوئی
غلطی ہو جائے تو اُسے سیاست
کہہ کر چھٹکارا حاصل کرلیتے
ہیں۔
اولیاءسے کوئی غلطی
ہوجائے، اُسے حکمت سمجھ
کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
جبکہ
نبیوں پر غلطی کا دفعہ
نہیں لگتا۔
............
جو جس شغل
میں ہیں، اندر سے اُن کی
متعلقہ روحیں طاقتور
ہیں۔
اور جو کسی بھی شغل
میں نہیں ہیں، اُن کی روحیں
خفتہ اور بے حس ہیں۔
اور
جنہوں نے کسی بھی طریقہ
سے اللہ کا نام ان روحوں
میں بسالیا، پھر اُن کا
شغل ہمہ وقت ذکر سلطانی
اور عشق ِخداوندی ہے۔
تب ہی علامہ اقبال نے
کہا:
اگر ہو عشق تو کفر
بھی ہے مسلمانی!
سچل سائیں نے کہا:
بِن
عشق ِدلبر کے سچل، کیا
کفر ہے کیا اسلام ہے!
سلطان باہو نے کہا:
جتھے
عشق پہنچاوے، ایمان نوں
وی خبر نہ کائی
ایسے لوگ
جب کسی مذہب میں ہوتے ہیں
یا جاتے ہیں، تو اُن کی
برکت سے اُس خطے پر اللہ
کی باران ِرحمت برسنا
شروع ہو جاتی ہے۔
پھر وہ
بابا فرید ہوں تو ہندو،
سکھ بھی اُن کی چوکھٹ پر
اگر
بابا گورونانک ہوں، تو
مسلم، عیسائی بھی اُن
کے در پر چلے آتے ہیں۔
........٭........
(امام مہدی تمام
مذاہب کی تجدید کرینگے)
جس طرح حضور پاک کی
ختم ِنبوت کے بعد مُسلم
میں مجدد آتے رہے
اور
ماحول کے مطابق دین میں
کچھ تجدید کرتے رہے
اسی
طرح امام مہدی علیہ السلام
کے آنے کے بعد اُن (مجدد
¶ں) کی تجدید ختم ہو جائیگی،
اور
سب مذاہب کے مطابق امام
مہدی ؑ کی اپنی تجدید ہوگی۔
کچھ
کتابوں میں ہے کہ وہ ایک
نیا دین بنائیں گے۔
٭فرمودات ِگوہر
شاہی٭
"اگر کوئی
ساری عمر عبادت کرتا رہے
، لیکن آخر میں امام مہدیؑ
اور حضرت عیسیٰؑ کی مخالفت
کربیٹھا،
جن کو دنیا میں
دوبارہ آنا ہے۔ عیسیٰؑ
کا جسم سمیت اور مہدیؑ
کا ارضی ارواح کے ذریعے
آنا ہے۔
تو وہ بلیعم باعور
کی طرح دوزخی اور ابلیس
کی طرح مردود ہے۔"
"اگرکوئی
ساری عمر کتوں جیسی زندگی
بسر کرتا رہا، لیکن آخر
میں اُن کا ساتھ اور اُن
سے محبت کر بیٹھا،
تو وہ
کتے سے حضرت قطمیر بن کر
جنت میں جائے گا۔"
کچھ
فرقے اور مذاہب کہتے ہیں
کہ عیسیٰؑ فوت ہوگئے۔
افغانستان میں اُن کا
مزار ہے، یہ غلط پرپیگنڈہ
ہے۔ افغانستان میں کسی
اور عیسی نامی بزرگ کا
دربار ہے۔ اُس پیادہ زمانے
میں مہینوں کی مسافت پر
جاکر دفنانا کیا مقصد
رکھتا تھا؟ پھر وہ کہتے
ہیں ، آسمان پر کیسے اُٹھائے
گئے؟ ہم کہتے ہیں آدم علیہ
السلام آسمان سے کیسے
لائے گئے؟ جبکہ ادریسؑ
بھی ظاہری جسم سے بہشت
میں اب تک موجود ہیں،خضرؑ
اور الیاسؑ جو دنیا میں
ہیں، اُن کو بھی ابھی تک
موت نہیں آئی۔غوث پاکؓ
کے پوتے حیات الامیر (600)
سال سے زندہ ہیں، غوث پاک
نے کہا تھا،اُس وقت تک
نہیں مرنا، جب تک میرا
سلام مہدی علیہ السلام
کو نہ پہنچادو۔ شاہ لطیف
کو بری امام کا لقب اُنہوں
نے ہی دیا تھا۔مری کی طرف
بارہ کوہ میں اُن کی بیٹھک
کے نشان ابھی تک محفوظ
ہیں۔
........٭........
ظاہری
گناہ کی سزا، جیل ،جرمانہ
یا ایک دن کی پھانسی ہے۔
اگر کوئی راہ ِ فقر میں
ہے، تو اس کی سزا ملامت
ہے۔ جبکہ باطنی گناہوں
کی سزا بہت زیادہ ہے۔ غیبت
کرنے والے کی نیکیوں سے
جرمانہ فریق دوئم کی نیکیوں
میں شامل کیا جاتاہے۔
حرص ، حسد ، بخل اور تکبر
اُس کی لکھی ہوئی نیکیوں
کو مٹا دیتے ہیں۔ اگر اُس
میں کچھ نور ہے، تو انبیاءواولیا
کی گستاخی اور بغض سے چھن
جاتا ہے۔ جیسا کہ شیخ صنعان
کا شیخ عبدالقادر جیلانی
کی گستاخی سے کشف و کرامات
کا سلب ہو جانا۔
واقعہ
ہے کہ جب بایزید بسطامی
کو پتہ چلا کہ ایک شخص اُن
کی برائی کرتا ہے، تو آپ
نے اُس کا وظیفہ مقرر کردیا۔
وہ وظیفہ بھی لیتا رہا
اور برائی بھی کرتا رہا۔
ایک دن اُس کی بیوی نے کہا:
نمک حرامی چھوڑ، یا وظیفہ
چھوڑ، یا برائی چھوڑ،
پھر اُس نے تعریف کرنا
شروع کردی۔آپ کو جب تعریف
کا پتہ چلا تو اُس کا وظیفہ
بند کردیا۔پھر وہ آپ کی
خدمت میں حاضر ہوا کہ جب
برائی کرتا تھا، وظیفہ
ملتا تھا، اب تعریف کی
وجہ سے وظیفہ کیوں بند
ہوا؟آپ نے فرمایا:تو اُس
وقت میرا مزدور تھا، تیری
برائی سے میرے گناہ جلتے،
میں اُس کا تجھے معاوضہ
دیتا تھا۔ اب کس چیز کا
معاوضہ دوں۔ مندرجہ برائیوںکا
تعلق نفس امارہ سے ہے،
جس کاامدادی ابلیس ہے۔
جبکہ تقویٰ، سخاوت، درگزر،
صبرو شکر، عاجزی اور انوارِ
الٰہی کا تعلق قلب ِشہید
سے ہے، جس کا امدادی ولی
مرشد ہے۔
........٭........
جب
تک نفس امارہ ہے کسی بھی
پاک کلام کے انوار دل میں
ٹھہر نہیں سکتے، بے شک
الفاظ و آیات کا حافظ کیوں
نہ بن جائے، طوطا ہی ہے۔
جب تیرا نفس مطمئنہ ہوجائے
گا، پھر ناپاک چیز تیرے
اندر ٹھہر نہیں سکتی،
پھر تُو مرغ ِبسمل ہے۔
نفس پاک کرنے کےلئے کسی
نفس شکن کو تلاش کر۔ جو
ہر وقت منجانب اللہ ڈیوٹی
پر مامور ہوتے ہیں۔ جسم
کے باہر کی طہارت پانی
سے ہوتی ہے، جبکہ جسم کے
اندر کی طہارت نور سے ہوتی
ہے۔ طہارت کے بغیر گندہ
اور ناپاک ہے۔ صاف جسم
عبادت ِ الٰہی کے قابل
ہوتاہے، جبکہ صاف دل تجلیاتِ
الٰہی کے قابل ہوتا ہے۔
پھر ہی آسمانی کتابیں
ھدایت کرتی ہیں پاکوں
کو( ھدی اللمتقین)۔ ورنہ
کتابوں والے ہی کتابوں
والوں کے دشمن بن جاتے
ہیں۔ مجدد الف ثانی مکتوبات
میں لکھتے ہیں: قرآن اُن
لوگوں کے پڑھنے کے لائق
نہیں جن کے نفس امارہ ہیں۔مبتدی
کو چاہیے کہ پہلے ذکر اللہ
کرے( یعنی اندر کو پاک کرے)،
مُنتہی کو چاہیے کہ پھر
قرآن پڑھے۔
الحدیث:
کچھ لوگ قرآن پڑھتے
ہیں اور قرآن اُن پر لعنت
کرتا ہے۔
بلھے شاہ: کھا
کے سارا مُکر گئے، جنھاں
دے بغل وچ قرآن
........٭........
عابد
کو گمان ہے کہ وہ اللہ کے
لئے عبادت اور شب بیداری
کررہا ہے، اسلئے وہ اللہ
کے بہت نزدیک ہے۔ عبادت
کے بعد تیری دعا، صحت،
عمردرازی، مال و دولت،
اور حورو قصور ہے، سوچ!
کیا تو نے کبھی بھی یہ دعا
مانگی تھی؟ اے اللہ مجھے
کچھ نہیں چاہیے، صرف تو
چاہیے!
عالم
کو گمان ہے کہ میں قرب ِخداوندی
میں بخشا بخشایا ہوا ہوں۔
کیونکہ میرے اندر علم
اور قرآن ہے۔ پھر تو دوسروں
کو جہنمی کیوں کہتا ہے،
جبکہ ہر مسلم کو بھی کچھ
نہ کچھ علم اور قرآن کی
بہت سی سورتیں یاد ہیں۔سوچ!
علم کون بیچتا ہے؟ خود
کون بکتا ہے؟ ولیوں کی
غیبت کون کرتا ہے؟ حاسد،
متکبر اور بخیل کون ہوتا
ہے؟ دل میں اور، زبان میں
اور، صبح اور، شام کو اور،
یہ کس کا وطیرہ ہے؟ سچ کو
جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا
کر کون پیش کرتا ہے؟ اگر
تو ان سے دور ہے، تو خلیفہ
ِ رسول ہے! تیری طرف پشت
کرنا بھی بے ادبی ہے ۔یعنی
.... قاری نظر آتا ہے، حقیقت
میں ہے قرآن (علامہ اقبال)
اگر تو ان خصلتوں میں گم
ہے ، تو پھر تُو وہی ہے جس
کےلئے بھیڑیے نے کہا تھا
کہ اگر میں نے یوسف کو کھایا
ہو تو اللہ مجھے چودھویں
صدی کے عالموں سے اُٹھائے۔
........٭........
(صراطِ مستقیم)
1 - جنکے ظاہر درست،
باطن سیاہ ہیں، مذہب میں
فتنہ ہیں، ابلیس کے خلیفہ
ہیں۔
حدیث: جاھل عالم
سے ڈرو اور بچو، جس کی زبان
عالم اور دل جاھل یعنی
سیاہ ہو۔
2 - باطن درست
لیکن ظاہر خراب.... ان کو مجذوب،
معذور، سکر اور منفرد
کہتے ہیں
عشق میں عقل
ہی نہ رہی تو حساب ِحشر
کیا؟ (تریاق ِقلب)
مذہب
کے لئے پریشانی ،لیکن
اللہ کے قرب میں ہوتے ہیں،
مگر مزید مرتبہ حاصل نہیں
کرسکتے، بامرتبہ تصدیق
نقالیئے زندیق۔ انہوں
نے صدر ایوب، بے نظیر اور
نواز شریف جیسوں کو اُن
کے دور ِحکومت میں ڈنڈے
مارے اور گالیاں دیں۔تم
کسی صاحب ِ اقتدار کو ڈنڈے
مارکر دکھاؤ، یعنی یہ
صرف اُن کی ذات تک محدود
ہے، دوسروں کے لئے نہیں
ہے۔
3 - ظاہر درست باطن بھی
درست.... ظاہری عبادت کے علاوہ
قلبی عبادت میں بھی ہوتے
ہیں،
اِن کو عالم ِ ربّانی
کہتے ہیں۔یہی منبر ِرسول
اور دین کے وارث ہوتے ہیں،
اور جب کسی کا ظاہر و باطن
ایک ہو جاتا ہے تو اُسے
نائبِ اللہ کہتے ہیں۔
اگرخواب میں یا روحانی
طور پر حج کرتا ہے تو ظاہر
میں بھی اُس کا درجہ ملتا
ہے، بلکہ ظاہری حج سے بہت
ہی زیادہ۔ روحوں کی نماز
ظاہری نماز کی حیثیت رکھتی
ہے، بلکہ کہیں زیادہ ،
اگر ظاہر میں نماز پڑھتا
ہے تو باطن میں بھی اس کی
نماز معراج بن جاتی ہے،
یہی لوگ ہیں، جسم اِدھر،
روح اُدھر، فقر کے محکمے
میں ان کو معارف بھی کہتے
ہیں۔ جبکہ عاشق کےلئے
رب کا دیدار ہی کافی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں، دیدار
ہوہی نہیں سکتا، لیکن
یہ دیدار والا علم حضور
سے شروع ہوچکا ہے۔ بقول
امام ابو حنیفہ: میں نے
۹۹ ننانوے مرتبہ رب کو
دیکھا ہے۔ بایزید بُسطامی
کہتے ہیں کہ میں نے ۷۰ مرتبہ
رب کا دیدار کیا ہے۔ دیدار
لطیفہ انا سے ہوتا ہے،
اور تم انا کی تعلیم اور
ذکر سے انجان ہو۔
(اللہ کا دوست)
اگر کسی کو خلق ِخدا کشف
و کرامات اور فیض کی وجہ
سے ولی مانتی ہے۔
لیکن
اُس کے کسی فعل یا مذہب
کی وجہ سے تُو دلبرداشتہ
ہے۔
اُس کی برائی کرنے
سے بہتر ہے تُو ادھر جانا
چھوڑ دے۔
کیا خبر؟ وہ کوئی
منظور ِ خدا ہو! شیخ بقا
ہو، یا کوئی لعل شہباز
ہو، کوئی خضر ہو،
یا ساھے
بابا ہو یا گورونانک ہو،
کوئی بلھے شاہ ہو اور کوئی
سدا سہاگن بھی ہو سکتا
ہے!
........٭........
گوہر
شاہی کا عالم انسانیت
کےلئے
انقلابی پیغام
مسلم
کہتا ہے کہ میں سب سے اعلیٰ
ہوں، جبکہ یہودی کہتا
ہے، میرا مقام مسلم سے
بھی اُونچا ہے،
اور عیسائی
کہتا ہے، میں ان دونوں
سے بلکہ سب مذاہب والوں
سے بلند ہوں، کیونکہ میں
اللہ کے بیٹے کی امت ہوں۔
لیکن گوہر شاہی کا کہنا
ہے!
سب سے بہتر
اور بلند وہی ہے، جس کے
دل میں اللہ کی محبت ہے،
خواہ وہ کسی بھی مذہب سے
نہ ہو!
زبان سے ذکر و صلواة
اُس کی اطاعت اور فرمانبرداری
کا ثبوت ہے، جبکہ قلبی
ذکر اللہ کی محبت اور رابطے
کا وسیلہ ہے.